کتاب حدیث
مسلم شریف
کتاب
مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام کا بیان
باب
رات کی نماز اور نبی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی رات کی نماز کی رکعتوں کی تعداد اور وتر پڑھنے کے بیان میں
حدیث نمبر
1643
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی الْعَنَزِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ زُرَارَةَ أَنَّ سَعْدَ بْنَ هِشَامِ بْنِ عَامِرٍ أَرَادَ أَنْ يَغْزُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَقَدِمَ الْمَدِينَةَ فَأَرَادَ أَنْ يَبِيعَ عَقَارًا لَهُ بِهَا فَيَجْعَلَهُ فِي السِّلَاحِ وَالْکُرَاعِ وَيُجَاهِدَ الرُّومَ حَتَّی يَمُوتَ فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ لَقِيَ أُنَاسًا مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ فَنَهَوْهُ عَنْ ذَلِکَ وَأَخْبَرُوهُ أَنَّ رَهْطًا سِتَّةً أَرَادُوا ذَلِکَ فِي حَيَاةِ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَهَاهُمْ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ أَلَيْسَ لَکُمْ فِيَّ أُسْوَةٌ فَلَمَّا حَدَّثُوهُ بِذَلِکَ رَاجَعَ امْرَأَتَهُ وَقَدْ کَانَ طَلَّقَهَا وَأَشْهَدَ عَلَی رَجْعَتِهَا فَأَتَی ابْنَ عَبَّاسٍ فَسَأَلَهُ عَنْ وِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَلَا أَدُلُّکَ عَلَی أَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ بِوِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ قَالَ عَائِشَةُ فَأْتِهَا فَاسْأَلْهَا ثُمَّ ائْتِنِي فَأَخْبِرْنِي بِرَدِّهَا عَلَيْکَ فَانْطَلَقْتُ إِلَيْهَا فَأَتَيْتُ عَلَی حَکِيمِ بْنِ أَفْلَحَ فَاسْتَلْحَقْتُهُ إِلَيْهَا فَقَالَ مَا أَنَا بِقَارِبِهَا لِأَنِّي نَهَيْتُهَا أَنْ تَقُولَ فِي هَاتَيْنِ الشِّيعَتَيْنِ شَيْئًا فَأَبَتْ فِيهِمَا إِلَّا مُضِيًّا قَالَ فَأَقْسَمْتُ عَلَيْهِ فَجَائَ فَانْطَلَقْنَا إِلَی عَائِشَةَ فَاسْتَأْذَنَّا عَلَيْهَا فَأَذِنَتْ لَنَا فَدَخَلْنَا عَلَيْهَا فَقَالَتْ أَحَکِيمٌ فَعَرَفَتْهُ فَقَالَ نَعَمْ فَقَالَتْ مَنْ مَعَکَ قَالَ سَعْدُ بْنُ هِشَامٍ قَالَتْ مَنْ هِشَامٌ قَالَ ابْنُ عَامِرٍ فَتَرَحَّمَتْ عَلَيْهِ وَقَالَتْ خَيْرًا قَالَ قَتَادَةُ وَکَانَ أُصِيبَ يَوْمَ أُحُدٍ فَقُلْتُ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ أَنْبِئِينِي عَنْ خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ أَلَسْتَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ قُلْتُ بَلَی قَالَتْ فَإِنَّ خُلُقَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ الْقُرْآنَ قَالَ فَهَمَمْتُ أَنْ أَقُومَ وَلَا أَسْأَلَ أَحَدًا عَنْ شَيْئٍ حَتَّی أَمُوتَ ثُمَّ بَدَا لِي فَقُلْتُ أَنْبِئِينِي عَنْ قِيَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ أَلَسْتَ تَقْرَأُ يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ قُلْتُ بَلَی قَالَتْ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ افْتَرَضَ قِيَامَ اللَّيْلِ فِي أَوَّلِ هَذِهِ السُّورَةِ فَقَامَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ حَوْلًا وَأَمْسَکَ اللَّهُ خَاتِمَتَهَا اثْنَيْ عَشَرَ شَهْرًا فِي السَّمَائِ حَتَّی أَنْزَلَ اللَّهُ فِي آخِرِ هَذِهِ السُّورَةِ التَّخْفِيفَ فَصَارَ قِيَامُ اللَّيْلِ تَطَوُّعًا بَعْدَ فَرِيضَةٍ قَالَ قُلْتُ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ أَنْبِئِينِي عَنْ وِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ کُنَّا نُعِدُّ لَهُ سِوَاکَهُ وَطَهُورَهُ فَيَبْعَثُهُ اللَّهُ مَا شَائَ أَنْ يَبْعَثَهُ مِنْ اللَّيْلِ فَيَتَسَوَّکُ وَيَتَوَضَّأُ وَيُصَلِّي تِسْعَ رَکَعَاتٍ لَا يَجْلِسُ فِيهَا إِلَّا فِي الثَّامِنَةِ فَيَذْکُرُ اللَّهَ وَيَحْمَدُهُ وَيَدْعُوهُ ثُمَّ يَنْهَضُ وَلَا يُسَلِّمُ ثُمَّ يَقُومُ فَيُصَلِّ التَّاسِعَةَ ثُمَّ يَقْعُدُ فَيَذْکُرُ اللَّهَ وَيَحْمَدُهُ وَيَدْعُوهُ ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيمًا يُسْمِعُنَا ثُمَّ يُصَلِّي رَکْعَتَيْنِ بَعْدَ مَا يُسَلِّمُ وَهُوَ قَاعِدٌ وَتِلْکَ إِحْدَی عَشْرَةَ رَکْعَةً يَا بُنَيَّ فَلَمَّا سَنَّ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَخَذَهُ اللَّحْمُ أَوْتَرَ بِسَبْعٍ وَصَنَعَ فِي الرَّکْعَتَيْنِ مِثْلَ صَنِيعِهِ الْأَوَّلِ فَتِلْکَ تِسْعٌ يَا بُنَيَّ وَکَانَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّی صَلَاةً أَحَبَّ أَنْ يُدَاوِمَ عَلَيْهَا وَکَانَ إِذَا غَلَبَهُ نَوْمٌ أَوْ وَجَعٌ عَنْ قِيَامِ اللَّيْلِ صَلَّی مِنْ النَّهَارِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَکْعَةً وَلَا أَعْلَمُ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ الْقُرْآنَ کُلَّهُ فِي لَيْلَةٍ وَلَا صَلَّی لَيْلَةً إِلَی الصُّبْحِ وَلَا صَامَ شَهْرًا کَامِلًا غَيْرَ رَمَضَانَ قَالَ فَانْطَلَقْتُ إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ فَحَدَّثْتُهُ بِحَدِيثِهَا فَقَالَ صَدَقَتْ لَوْ کُنْتُ أَقْرَبُهَا أَوْ أَدْخُلُ عَلَيْهَا لَأَتَيْتُهَا حَتَّی تُشَافِهَنِي بِهِ قَالَ قُلْتُ لَوْ عَلِمْتُ أَنَّکَ لَا تَدْخُلُ عَلَيْهَا مَا حَدَّثْتُکَ حَدِيثَهَا
محمد بن مثنی، محمد بن ابی عدی، سعید بن قتادہ، زرارہ سے روایت ہے کہ حضرت سعد بن ہشام بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اللہ تعالی کے راستہ میں جہاد کا ارادہ کیا تو وہ مدینہ منورہ آگئے اور اپنی زمین وغیرہ بیچنے کا ارادہ کیا تاکہ اس کے زریعہ سے اسلحہ اور گھوڑے وغیرہ خرید سکیں اور مرتے دم تک روم والوں سے جہاد کریں تو جب وہ مدینہ منورہ میں آگئے اور مدینہ والوں میں سے کچھ لوگوں سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے حضرت سعد کو اس طرح کرنے سے منع کیا اور ان کو بتایا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاة طیبہ میں چھ آدمیوں نے بھی اسی طرح کا ارادہ کیا تھا تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی ایسا کرنے سے روک دیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تمہارے لئے میری زندگی میں نمونہ نہیں ہے؟ جب مدینہ والوں نے حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ حدیث بیان کی تو انہوں نے اپنی اس بیوی سے رجوع کیا جس کو وہ طلاق دے چکے تھے اور اپنے اس رجوع کرنے پر لوگوں کو گواہ بنالیا پھر وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف آئے تو ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وتر کے بارے میں پوچھا تو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ کیا میں تجھے وہ آدمی نہ بتاؤں جو زمین والوں میں سے سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وتر کے بارے میں جانتا ہے! حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا وہ کون ہے؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، تو ان کی طرف جا اور ان سے پوچھ پھر اس کے بعد میرے پاس آ اور وہ جو جواب دیں مجھے بھی اس سے باخبر کرنا، حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں پھر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف چلا، حکیم بن افلح کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ مجھے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف لے کر چلو، وہ کہنے لگے کہ میں تجھے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف لے کر نہیں جا سکتا کیونکہ میں نے انہیں اس بات سے روکا تھا کہ وہ ان دو گروہوں (علی اور معاویہ) کے درمیان کچھ نہ کہیں تو انہوں نے نہ مانا اور چلی گئیں، حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ان پر قسم ڈالی تو وہ ہمارے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف آنے کے لئے چل پڑے اور ہم نے اجازت طلب کی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ہمیں اجازت دی اور ہم ان کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حکیم بن افلح کو پہنچان لیا اور فرمایا: کیا یہ حکیم ہیں؟ حکیم کہنے لگے کہ جی ہاں! حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: تیرے ساتھ کون ہے؟ حکیم نے کہا کہ سعد بن ہشام ہیں، آپ نے فرمایا ہشام کون ہے؟ حکیم نے کہا کہ عامر کا بیٹا، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عامر پر رحم کی دعا فرمائی اور اچھے کلمات کہے، حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ عامر غزوہ احد میں شہید کر دئے گئے تھے، تو میں نے عرض کیا اے ام المومنین مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں بتائیے! حضرت عائشہ نے فرمایا کہ کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ میں نے عرض کیا ہاں، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اخلاق قرآن ہی تو تھا، حضرت سعد کہتے ہیں کہ میں نے ارادہ کیا کہ میں اٹھ کھڑا ہو جاؤں اور مرتے دم تک کسی سے کچھ نہ پوچھوں پھر مجھے خیال آیا تو میں نے عرض کیا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قیام کے بارے میں بتائیے، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کیا تو نے (یَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ) نہیں پڑھی؟ میں نے عرض کیا جی ہاں! حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے اس سورة کی ابتداء ہی میں رات کے قیام کو فرض کردیا تھا تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے ایک سال رات کو قیام فرمایا اور اللہ تعالی نے اس سورة کے آخری حصہ کو بارہ مہینوں تک آسمان میں روک دیا یہاں تک کہ اللہ تعالی نے اس سورة کے آخر میں تخفیف نازل فرمائی تو پھر رات کا قیام فرض ہونے کے بعد نفل ہوگیا، حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں نے عرض کیا کہ اے ام المومنین مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز وتر کے بارے میں بتائیے! تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے مسواک اور وضو کا پانی تیار رکھتے تھے تو اللہ تعالی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رات کو جب چاہتا بیدار کردیتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسواک فرماتے اور وضو فرماتے اور نو رکعات نماز پڑھتے ان رکعتوں میں نہ بیٹھتے سوائے آٹھویں رکعت کے بعد اور اللہ تعالی کو یاد کرتے اور اس کی حمد کرتے اور اس سے دعا مانگتے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھتے اور سلام نہ پھیر تے پھر کھڑے ہو کر نو یں رکعت پڑھتے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھتے اللہ تعالی کو یاد کرتے اور اس کی حمد بیان فرماتے اور اس سے دعا مانگتے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سلام پھیرتے سلام پھیرنا ہمیں سنا دیتے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سلام پھیرنے کے بعد بیٹھے بیٹھے دو رکعات نماز پڑھتے تو یہ گیارہ رکعتیں ہوگئیں، اے میرے بیٹے! پھر جب اللہ کے نبی کی عمر مبارک زیادہ ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم مبارک پر گوشت آ گیا تو سات رکعتیں وتر کی پڑھنے لگے اور دو رکعتیں اسی طرح پڑھتے جس طرح کہ پہلے بیان کیا تو یہ نو رکعتیں ہوئی اے میرے بیٹے! اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بھی کوئی نماز پڑھتے تو اس بات کو پسند فرماتے کہ اس پر دوام کیا جائے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نیند کا غلبہ ہوتا یا کوئی درد وغیرہ ہوتی کہ جس کی وجہ سے رات کو قیام نہ ہو سکتا ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دن کو بارہ رکعتیں پڑھتے اور مجھے نہیں معلوم کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ہی رات میں سارا قرآن مجید پڑھا ہو اور نہ ہی مجھے یہ معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پورا مہیںہ روزے رکھے ہوں سوائے رمضان کے، حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف گیا اور ان سے اس ساری حدیث کو بیان کیا تو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سچ فرمایا اور اگر میں ان کے پاس ہوتا یا ان کی خدمت میں حاضری دیتا تو میں یہ حدیث سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بالمشافہ (براہ راست) سنتا، راوی کہتے ہیں کہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ انکے پاس نہیں جاتے تو میں انکی حدیث آپ کو بیان نہ کرتا-
contributed by MUHAMMAD TAHIR RASHID.
No comments:
Post a Comment