Saturday 9 July 2011

Sahi Muslim, Jild 1, Hadith no:1994

کتاب حدیث
مسلم شریف
کتاب
سورج  گرہن کا بیان
باب
 نماز گرہن کے بیان میں
حدیث نمبر
1994
حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَی أَخْبَرَنِي ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي يُونُسُ ح و حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ وَمُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْمُرَادِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ عَنْ يُونُسَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ خَسَفَتْ الشَّمْسُ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَی الْمَسْجِدِ فَقَامَ وَکَبَّرَ وَصَفَّ النَّاسُ وَرَائَهُ فَاقْتَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِرَائَةً طَوِيلَةً ثُمَّ کَبَّرَ فَرَکَعَ رُکُوعًا طَوِيلًا ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ ثُمَّ قَامَ فَاقْتَرَأَ قِرَائَةً طَوِيلَةً هِيَ أَدْنَی مِنْ الْقِرَائَةِ الْأُولَی ثُمَّ کَبَّرَ فَرَکَعَ رُکُوعًا طَوِيلًا هُوَ أَدْنَی مِنْ الرُّکُوعِ الْأَوَّلِ ثُمَّ قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ ثُمَّ سَجَدَ وَلَمْ يَذْکُرْ أَبُو الطَّاهِرِ ثُمَّ سَجَدَ ثُمَّ فَعَلَ فِي الرَّکْعَةِ الْأُخْرَی مِثْلَ ذَلِکَ حَتَّی اسْتَکْمَلَ أَرْبَعَ رَکَعَاتٍ وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ وَانْجَلَتْ الشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ يَنْصَرِفَ ثُمَّ قَامَ فَخَطَبَ النَّاسَ فَأَثْنَی عَلَی اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ فَإِذَا رَأَيْتُمُوهَا فَافْزَعُوا لِلصَّلَاةِ وَقَالَ أَيْضًا فَصَلُّوا حَتَّی يُفَرِّجَ اللَّهُ عَنْکُمْ وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَيْتُ فِي مَقَامِي هَذَا کُلَّ شَيْئٍ وُعِدْتُمْ حَتَّی لَقَدْ رَأَيْتُنِي أُرِيدُ أَنْ آخُذَ قِطْفًا مِنْ الْجَنَّةِ حِينَ رَأَيْتُمُونِي جَعَلْتُ أُقَدِّمُ و قَالَ الْمُرَادِيُّ أَتَقَدَّمُ وَلَقَدْ رَأَيْتُ جَهَنَّمَ يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا حِينَ رَأَيْتُمُونِي تَأَخَّرْتُ وَرَأَيْتُ فِيهَا ابْنَ لُحَيٍّ وَهُوَ الَّذِي سَيَّبَ السَّوَائِبَ وَانْتَهَی حَدِيثُ أَبِي الطَّاهِرِ عِنْدَ قَوْلِهِ فَافْزَعُوا لِلصَّلَاةِ وَلَمْ يَذْکُرْ مَا بَعْدَهُ
حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ح، ابوطاہر، محمد بن سلمہ مرادی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عروة بن زبیر، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں سورج گرہن ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد کی طرف نکلے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے، تکبیر کہی گئی اور لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے صف بنالی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لمبی قرات کی پھر تکبیر کہہ کر رکوع کیا تو طویل رکوع کیا پھر اپنے سر کو اٹھایا تو ( سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ) فرمایا پھر کھڑے ہوئے اور لمبی قرات کی اور یہ قرات پہلی قرات سے کم تھی پھر تکبیر کہہ کر رکوع کیا لمبا رکوع لیکن پہلے رکوع سے کم تھا پھر سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ کہا پھر سجدہ کیا لیکن ابوالطاہر نے ثم سجد ذکر نہیں کیا پھر دوسری رکعت میں اسی طرح کیا یہاں تک کہ چار رکوع اور چار سجدے پورے کئے۔ اور سورج روشن ہوگیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز سے فارغ ہونے سے پہلے، پھر پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑے ہو کر لوگوں کو خطبہ دیا اور اللہ کی اس کی شان کے مطابق تعریف بیان کی پھر فرمایا کہ سورج اور چاند اللہ کی آیات میں سے دو آیات ہیں، کسی کی موت یا حیات کی وجہ سے بے نور نہیں ہوتے، جب تم ان کو اس طرح دیکھو تو نماز کی طرف جلدی کرو، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ نماز ادا کرو یہاں تک کہ اللہ اس کو تم سے کھو لدے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اس جگہ ہر وہ چیز دیکھی ہے جس کا تم وعدے دیے گئے ہو یہاں تک کہ میں نے اپنے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ میں نے جنت سے ایک گچھا لینے کا ارادہ کیا جب تم نے مجھے آگے بڑھتے ہوئے دیکھا مراوی کہتے ہیں کہ اقدم کی بجائے اتقدم کہا ہے اور میں نے جہنم کو دیکھا کہ اس کا ایک حصہ دوسرے کو توڑ رہا ہے جب تم نے مجھے پیچھے ہٹتے دیکھا اور اس میں عمرو بن لحی کو دیکھا اور یہ وہ ہے جس نے سب سے پہلے سانڈ بنا کر چھوڑے ابوطاہر کی حدیث ( فَافْزَعُوا الی الصَّلَاةِ) پر ختم ہو گئی اور اس کے بعد اس نے ذکر نہیں کی-



contributed by MUHAMMAD TAHIR RASHID.

No comments:

Post a Comment